قرآن اور سائنس کے درمیان موافقت I Compatibility between the Qur’an and Science I www.tafseer.xyz
قرآن اور سائنس کے درمیان موافقت
قرآن و سائنس دو علوم مختلف ہیں جن کی بنیادی تصورات ایک دوسرے سے مختلف ہیں، البتہ کچھ موضوعات میں دونوں کے درجہ بندی اور علمی اقوال ملتے ہیں۔
قرآن کے پیش نظر دنیا کے تعمیر کا بنیادی عنصر ہے جبکہ سائنس طبیعیاتی علوم کے مطابق کائنات کی تعمیر اور حرکت کا بنیادی عنصر قوانین طبیعت ہیں۔ البتہ قرآن میں بھی کائنات اور انسانی جسم کے بارے میں بہت سے تفصیلات بتائی گئی ہیں جو سائنسی حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر، قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو نطفہ سے پیدا کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، قرآن میں بتایا گیا ہے کہ کائنات کو خلق کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے جبکہ سائنس میں بھی یہی بات کہی جاتی ہے کہ کائنات کو بڑی بڑی دھاتی تاروں سے بنایا گیا ہے جو بمعنی نظر آنے والے ایٹموں سے تشکیل پاتے ہیں۔
اس طرح سے، قرآن اور سائنس کے درمیان موافقت کی بات کی جا سکتی ہے جہاں دونوں کے علمی اقوال میں ممکنہ موافقت پایا جاتا ہے۔
قرآن اور سائنس دو مختلف علوم ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف حوالوں سے نظر آتے ہیں، البتہ قرآن میں بتائی گئی بعض حقائق اور تفصیلات سائنسی حقائق کی تصدیق کرتے ہیں۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے چھ یوموں میں بنایا ہے، جبکہ سائنس کے مطابق ہماری دنیا بڑے بڑے سیاروں کے گھومنے کے باعث تشکیل پائی ہے۔ اسی طرح، قرآن میں بتایا گیا ہے کہ سورج غروب ہو جاتا ہے اور رات کا اندھیرا چھا جاتا ہے، جبکہ سائنس کے مطابق یہ دونوں امور زمین کے گھومنے اور اس کے مدار کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ، قرآن میں انسانی جسم کے بارے میں بھی بہت سے تفصیلات بتائی گئی ہیں جو سائنسی تحقیقات سے مماثلت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے دل میں خون کی روانی ہوتی ہے، جبکہ سائنس کے مطابق دل کا کام خون کی روانی سے ہوتا ہے۔
ایک اور مثال جو قرآن اور سائنس کی مطابقت دکھاتی ہے وہ ہے آیت مبارکہ جس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ زمین اور آسمان کی تعداد بیس ہے۔ اس کے برعکس، سائنس میں ہم جانتے ہیں کہ آسمان کی تعداد بہت زیادہ ہے، اور ہم ابھی تک زمین کی تعداد کو جاننے میں ناکام ہیں۔ البتہ اگر ہم آیت کو اس طرح سمجھیں کہ یہ بیان کرتی ہے کہ اللہ کی قدرت اور تخلیق کی تعداد بیس ہے، تو یہ مطابقت قرآن اور سائنس کے درمیان ہو جاتی ہے۔
ایک اور مثال جو قرآن اور سائنس کی مطابقت دکھاتی ہے وہ ہے آیت مبارکہ جس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ انسان کی پیدائش کے دوران اس کے جسم میں لحم و پوست اور اندرونی اعضاء کا تعلق جوڑا جاتا ہے۔ سائنس میں ہم جانتے ہیں کہ ایک جنین کی پیدائش کے دوران، جسم کے مختلف حصوں کو جوڑ کر یہ تشکیل پاتا ہے۔ اس طرح، قرآن اور سائنس کی یہ مطابقت بھی دکھاتی ہے کہ قرآن میں بتائی گئی معلومات بھی سائنسی تحقیقات کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں۔
ایک اور مثال جو قرآن اور سائنس کی مطابقت دکھاتی ہے وہ ہے آیت مبارکہ جس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ دودھ اور خون کی شرابوں کی شکل میں پرورش دی جاتی ہے۔ یہ آیت مبارکہ سائنس کے تحت بھی درست ثابت ہوتی ہے، کیونکہ جب بچہ جنم لیتا ہے تو اس کے جسم میں دودھ کی شکل میں پیدا ہونے والے غذائی ترکیب کو خون کی شکل میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ اس طرح، قرآن میں بیان کی گئی معلومات سائنسی حقائق کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں۔
ایک اور مثال جو قرآن اور سائنس کی مطابقت دکھاتی ہے وہ ہے آیت مبارکہ جس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ سورج اپنے مقام تک سدھرتا ہے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ زمین کی دوسری جانب دوہری روشنی پہنچتی ہے۔ اس کے برعکس، سائنس میں ہم جانتے ہیں کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے اور زمین پر زندگی کی وجہ سے ہی دوہری روشنی پیدا ہوتی ہے۔ البتہ اگر ہم آیت کو اس طرح سمجھیں کہ یہ بیان کرتی ہے کہ سورج اپنی روشنی زمین تک پہنچاتا ہے،
قرآن اور سائنس کے درمیان موافقت
قرآن اور سائنس کے درمیان موافقت کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ اگر ہم دیکھیں تو قرآن نے ایک ہزار سال پہلے جو بیان کیا گیا تھا، اب تک سائنس اس بیان کی تصدیق کرتی ہے۔ یہ بہت سارے میدانوں میں شامل ہیں جیسے طبیعیات، نظام شمسی، زمینیات، جیولوجی، جیوانیات، جنین شناسی، طب، روانیات، علم النفس، اجتماعیات، تعلیم، سیاسیات، وغیرہ۔
ایک مثال اس بات کی ہے کہ قرآن میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ جواب دینے والے کے لئے بہتر ہے کہ اسے نرم الفاظ سے جواب دیا جائے۔ اس بات کی تصدیق سائنسی روانیات میں کی گئی ہے جہاں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ نرم الفاظ کے استعمال سے دوسروں پر اثر انداز ہونے والے کیمیائی عمل کو کم کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور مثال سائنسی طریقے سے نفسیات کے میدان میں ہے، جہاں اسلامی نظریہ زندگی کی فلسفہ اور طرزِ زندگی کے ساتھ موافق ہے۔ مثلاً، قرآن میں دعا کرنے اور نماز پڑھنے کے فائدے کے بارے میں بتایا گیا ہے، جو اب سائنسی طور پر بھی ثابت کیا گیا ہے۔ دعا کرنے سے دل کی دھڑکن تیز ہوتیایک اور مثال اس بات کی ہے کہ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ہمارے جسم کے اندر بھی آگ کا ایک حصہ پایا جاتا ہے، جس کو “حرارت” کہا جاتا ہے۔ جب تک سائنس نے آگ کے بارے میں کچھ جاننے کے لئے تجربات نہ کیے، لوگوں کو یہ معلوم نہیں تھا۔
ایک اور مثال سائنسی طریقے سے جیولوجی کے میدان میں ہے، جہاں قرآن میں زمین کے پردہ کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ زمین کے پردہ سے مراد زمین کے اندر کی پرت ہے، جو سائنسی طور پر بھی ثابت کیا گیا ہے کہ زمین کے اندر مختلف پرتوں کی آمد و رفت کی وجہ سے موجود ہے۔
ایک اور مثال سائنسی طریقے سے طبیعیات کے میدان میں ہے، جہاں قرآن میں اتاراز کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ اتاراز کا مطلب ہے کہ دو اشیاء کے درمیان فاصلہ بڑھا دیا جائے تو وہ ایک دوسرے کو دوبارہ جذب کر لیتے ہیں۔ یہ کام سائنس میں بھی کیا جاتا ہے، جہاں اتاراز کا استعمال بہت سے مختلف میدانوں میں کیا جاتا ہے۔
ایک مثال اس بات کی ہے کہ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ پانی کی دھار کو “سمندر کی دھار” کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، سائنس کے لحاظ سے، سمندر کی دھار کے علاوہ بھی دیگر دھاریوں کو بھی پانی کی دھار کہا جاتا ہے۔ لہٰذا، اگرچہ دونوں میں کچھ تفاوت ہوتی ہے، لیکن اس بات کی تصدیق کی جا سکتی ہے کہ قرآن میں بھی اور سائنس میں بھی پانی کی دھار کی وجہ سے مختلف حالات پیدا ہوتے ہیں۔
ایک اور مثال سائنسی طریقے سے طبیعیات کے میدان میں ہے، جہاں قرآن میں بتایا گیا ہے کہ چاند اور دیگر سیاروں کو “منارہ” کہا جاتا ہے۔ سائنس کے مطابق، چاند اور دیگر سیاروں کو منارہ نہیں کہا جاتا ہے، لیکن اس بات کی تصدیق کی جا سکتی ہے کہ چاند اور دیگر سیاروں کے طرح منارے بھی آسمان میں دیکھائی دیتے ہیں۔
ایک اور مثال سائنسی طریقے سے بائیولوجی کے میدان میں ہے، جہاں قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے جسم کے اندر بھی خون دوھراہی ہوتی ہے۔ اب تک سائنس کی نظریات کے مطابق، انسان کے جسم کے اندر صرف ایک خون دوھراہی ہوتی ہے، جو دل سے نکل کر اور اپنے جسم میں اسٹریم کرتا ہوا باقی جسم میں پہنچتا ہے۔ لیکن اس بات کی تصدیق کی جا سکتی ہے کہ قرآن میں بھی خون دوھراہی کے بارے میں بتایا گیا ہے جو ایک اہم طبی حقیقت ہے۔
آخر میں، اگرچہ قرآن اور سائنس دو مختلف میدانوں کی زبان اور روایات کو استعمال کرتے ہیں، لیکن دونوں کی مشترکہ مقصد ایک ہی ہے: یعنی انسانیت کی خدمت کرنا اور حقیقت کی تلاش کرنا۔ لہٰذا، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم دونوں کی مطالعہ کریں اور ان کے درمیان موجود مشترکہ نکات کو پہچانیں تاکہ ہم اپنے دنیا کے بارے میں زیادہ بہتر جان سکیں۔
ایک اور مثال ہے آسٹرانامی میدان میں، جہاں قرآن میں کہا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین کو آپس میں جوڑنے والے ہیں۔ سائنس کے حوالے سے ہم جانتے ہیں کہ آسمان اور زمین کے بیچ کا خلا خالی ہے، لیکن آسٹرانامی میدان کی رو سے، اس بات کا مراد ہوسکتا ہے کہ دونوں کی بین الاقوامی تعامل اور تأثیرات پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح، آسمانوں کو زمین سے جوڑنے والے اجرام مثل مشتری، کبھی کبھار زمین سے دور ہوتے ہیں اور پھر زمین کے قریب آتے ہیں۔ لہٰذا، آسمانوں اور زمین کے درمیان ایک تعاملی رشتہ پایا جاتا ہے۔
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ قرآن کے بیانات کا تفسیر اور تعبیر کرنے کا طریقہ مختلف علماء کے لئے مختلف ہوسکتا ہے، اور ایک چیز کے مختلف تعبیرات ممکن ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح، سائنسی نظریات اور حقائق کے بھی مختلف ترجیحات اور تعبیرات ممکن ہوتے ہیں۔ لہٰذا، قرآن اور سائنس کے مابین موافقت کے حوالے سے مختلف لوگوں کے مختلف خیالات اور نظریات ہوسکتے ہیں۔
ایک اور مثال ہے ہمارے جسم کے بنیادی عضو قلب کے بارے میں، جسے قرآن میں دل کہا جاتا ہے۔ قرآن میں کہا گیا ہے کہ دل نہ صرف جسم کا عضو ہے بلکہ اس میں معنوی اہمیت بھی ہے، جس کے لئے ہمیں اسے صاف اور صحیح رکھنا چاہئے۔
اس کے برعکس، سائنس میں ہم جانتے ہیں کہ قلب ہمارے جسم کا اہم ترین عضو ہے، جو خون کی حرکت کو دائرہ کار میں رکھتا ہے اور تمام جسم کو ضروری غذائیات فراہم کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود، جیسا کہ قرآن میں بھی ذکر کیا گیا ہے، قلب کا علاوہ دیگر اعضاء جیسے کہ دماغ، اعصابی نظام، چشم، کان، منہ، ناک، گلہری، کلیجے، پیٹ اور جگر جیسے عضو بھی معنوی اہمیت رکھتے ہیں جنہیں صاف اور صحیح رکھنا بھی ضروری ہے۔
ایک اور مثال ہے، قرآن میں انسانی جنس کے بارے میں بہت سی باتیں بتائی گئی ہیں، جیسے کہ انسان کی پیدائش کے بارے میں، انسان کے مقام کے بارے میں، انسان کے تخلیقی عمل کے بارے میں، انسان کے بارے میں تربیتی و تعلیمی اصول، انسان کے علاقہ و اطراف کے بارے میں، انسان کے سماجی حقوق اور بہت کچھ۔
سائنس کی جانب سے بھی، انسانی جنس کے بارے میں بہت کچھ جانا گیا ہے۔ ابتدائی بنیادوں کے ساتھ شروع کرتے ہوئے، ہم جانتے ہیں کہ انسان کی جسمانی ترقی کی بنیادی اقسام کیا ہیں اور ہم انسان کے بھاؤ کے بارے میں بھی بہت کچھ جانتے ہیں۔
اس کے علاوہ، سائنس نے انسان کی دماغی ترقی کے بارے میں بھی بہت کچھ جانا ہے، جیسے کہ دماغ کے بارے میں، اعصابی نظام کے بارے میں، خیالیاتی تفکر کے بارے میں، یاداشت کی عملیات کے بارے میں، سماجی تعاملات کے بارے میں، وغیرہ۔
جیسے جیسے ہم انسانی جنس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے قابل ہوتے ہیں، ہمارے پاس قرآن کے ان بیانات کے ساتھ زیادہ سے زیادہ موافقت کرنے کا مو
دوسری مثال کے طور پر، قرآن میں ایک ایسی عبارت ہے جو پانی کی توفیق پر توجہ دیتی ہے۔ قرآن کے کئی مختلف مقاموں پر پانی کو جانوروں، پودوں، زمین کی فراہمی، اور زندگی کے لئے اہم بتایا گیا ہے۔
سائنسی دنیا میں بھی، پانی کی اہمیت کو سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ ہماری زندگی کے لئے ضروری ہے۔ پانی نہ صرف ہمارے جسم کے لئے درکار ہے، بلکہ اس کے بغیر زمین پر کوئی جاندار نہیں رہ سکتا۔
ایک اور مثال ہے، جس میں قرآن میں اللہ کی صفات پر توجہ دی جاتی ہے۔ قرآن میں اللہ کی صفات بتائی گئی ہیں جیسے کہ علم، حکمت، رحمت، قدرت، جباریت، صبر، وغیرہ۔ سائنسی دنیا میں بھی، ہم جانتے ہیں کہ اللہ کی صفات میں دی گئی معیاریں ہیں، جنہیں مثلاً فضا، کائنات، حیات، جینز، اور جسمانی عملیات کے ذریعہ ہم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک اور مثال ہے سورۃ الحدید کی جسمی اور مادی حقیقت کی بیان کے بارے میں، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ ۖ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ”
“کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ کی تسبیح ہر وہ شخص کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہوتے ہیں اور پرندے بھی، جو صاف صف ہو کر اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ ہر شخص کو اس کی نماز اور تسبیح کی جان پڑتی ہے۔ اور اللہ ان کے اعمال کی خوب خبر رکھتا ہے۔” (سورۃ الحدید، 1)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اندرونی اور بیرونی تجربات کے بارے میں بتاتے ہیں، جیسے کہ ہر شخص کے اندرونی حالات اور تجربات ان کی نماز اور تسبیح کے ذریعے اللہ کے سامنے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کے تمام مخلوقات کی تسبیح کرتے دکھاتے ہیں، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور تعریف کی جان پڑتی ہے
ایک اور مثال ہے کہ قرآن میں علوم کی آغاز کی بات کی گئی ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ اس کے علاوہ، قرآن میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے ہر چیز کو اپنے نقش و نگار سے پیدا کیا ہے۔ یہ باتیں سائنسی حقائق کے ساتھ موافقت کرتی ہیں کہ ہمارا یہ جہان خدا کے ذریعے پیدا کیا گیا ہے اور سب کچھ کو خدا کے قدرتی اصولوں سے بنایا گیا ہے۔
قرآن میں ایک اور بہت اہم موضوع ہے انسانیت کے اصول۔ قرآن میں انسانیت کے اصول بتائے گئے ہیں جیسے کہ صداقت، امانت، محبت، تعاون، اظہار کرم، ایک دوسرے کی حقوق کا ادا کرنا، ضعف کے ساتھ رحم و کرم کرنا، وغیرہ۔ یہ اصول انسانیت کے لئے بہت اہم ہیں اور ان کی پالیسیوں اور نظریات میں سائنسی تحقیقات بھی شامل ہیں۔
یک اور مثال ہے توانائی کے بارے میں، جو قرآن اور سائنس کے درمیان موافقت کا ایک اور میدان ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین اور آسمانوں کو آپس میں جوڑتا ہے اور ہمیں زمین کے ساتھ محفوظ رکھتا ہے۔ یہاں اس حقیقت کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ قرآن کے دور میں زمین کی شکل چاکلی کی شکل میں سمجھی جاتی تھی، لیکن سائنس کے اندازے کے مطابق زمین کا شکل گول ہے۔
سائنسی دنیا میں، ابتدائی برقیہ کی توانائی کو مادہ کی توانائی سے ضرب دے کر جانچا جاتا ہے۔ یہ علمی حقیقت ہے کہ مادہ اور توانائی کا مابین تعلق ہے، جو قرآن میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کل مادہ کی توانائی کو بھی اپنے اختیار میں رکھتا ہے۔
ایک اور مثال ہے کہ قرآن اور سائنس دونوں کے تحت کائنات کا تعیناتی نظام ہے۔ قرآن میں اس بارے میں بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے سماوات اور زمین کو تقسیم کیا ہے اور دونوں کے درمیان ایک روانی کو روک دیا ہے جو ہم جانتے ہیں کہ زمین اور اس کے ماحول کو حفاظت کرتی ہے۔
سائنسی تحقیقات کے نتائج کے مطابق، کائنات کا تعیناتی نظام سیدھے سیدھے قرآن کی بیانات سے مماثل ہے۔ سائنس دکھاتی ہے کہ کائنات کے تمام تجزیات معقول ہیں، جنہیں ایک عظیم منظم نظام کے تحت منسلک کیا گیا ہے۔ اس منظم نظام کے تحت، ستاروں اور کوانٹم فیزیکس کے قوانین کو شامل کرتے ہوئے، سائنس دکھاتی ہے کہ کائنات ایک بے حد و بلا حد، متصل نظام ہے جو دائمی طور پر کارکردگی کرتا ہے۔
اسی طرح، قرآن میں بتایا گیا ہے کہ کائنات کے تمام جزوں کی ایک ہدف ہے، جسے خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق پورا کرنے کیلئے بنایا گیا ہے۔ اسی طرح، سائنس بھی دکھاتی ہے کہ کائنات کا تعیناتی نظام ایک ہموار، منسلک، منظم اور بے حد و بلا حد نظام ہے جس کا ایک ہدف ہے، ا