خصوصی مضامین
Trending

رمضان المبارک کی فضیلت و اہمیت قرآن وحدیث کی روشنی میں

*بسم الله الرحمٰن الرحیم*
اللہ تعالیٰ کا احسان ہے جس نے ہمیں رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینہ سے نوازا ہے۔ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس کی آمد کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دعائیں مانگتے تھے.
*۔حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرماتے”اے اللہ ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب فرما”۔ ( رواه أحمد في مسنده)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان کا پوری تیاری کے ساتھ استقبال فرماتے۔ رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شب و روز کے معمولات بڑھ جاتے۔ تہجد کا اہتمام خود بھی کرتے تھے اور دوسروں کو بھی تاکید فرماتے. مسلمانوں کے لئے یہ مہینہ ابرِ رحمت کی مانند ہے جس کے برسنے سے مومنوں کے دل منور ہو جاتے ہیں اور ان کے گناہ دھل جاتے ہیں۔رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت اور فیوض و برکات کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی اقوال منقول ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابزنجیر کر دیا جاتا ہے۔‘‘بخاری: رقم 1899
اسی طرح ایک اور روایت بھی’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے شیاطین اور سرکش جنات کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا، اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پس ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ ایک ندا دینے والا پکارتا ہے: اے طالب خیر! آگے بڑھ، اے شر کے متلاشی! رک جا، اور اللہ تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔ یعنی ان کی مغفرت کا فیصلہ کر دیتا ہے ماہ رمضان کی ہر رات یونہی ہوتا رہتا ہے۔ ترمذی الرقم : 682،
اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے جب رمضان المبارک شروع ہوتا ہے تو خیر کے تمام اسباب بروئے کار لائے جاتے ہیں اور شر کے اسباب مسدود کر دیے جاتے ہیں، چنانچہ جنت (جو کہ رب ذوالجلال کی صفتِ رحمت کا مظہر ہے) کے سب دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اس کے اثرات دنیا میں پھیلتے ہیں اور جہنم (جو کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ غضب کا مظہر ہے) کے سب دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، تاکہ اس کا اثر نہ پھیل جائے۔ اس مبارک ماہ میں فرشتے زمین میں پھیل جاتے ہیں اور نیک کاموں کا الہام کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے صالح اور اطاعت شعار بندے طاعات و حسنات میں مشغول و منہمک ہو جاتے ہیں، وہ دن کو روزہ اور ذکر و تلاوت میں گزارتے ہیں اور راتوں کا بڑا حصّہ اللہ کے حضور سربسجود اور دعا و استغفار میں گزارتے ہیں ، اور ان کے انوار و برکات سے عام مومنین کے قلوب بھی رمضان میں عبادات اور نیکیوں کی طرف راغب ہو جاتے ہیں اور بہت سے گناہوں سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں ۔ یہ سب اہتمام اس وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ رمضان المبارک عبادت کا خاص مہینہ ہے
’’اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ایک اور جگہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم کھا کر فرمایا : تم پر ایسا مہینہ سایہ فگن ہوگیا ہے کہ مسلمانوں پر اِس سے بہترمہینہ اور منافقین پر اس سے بُرا مہینہ کبھی نہیں آیا۔ پھر دوبارہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےقسم کھا کر ارشاد فرمایا: ﷲ تعالیٰ اس مہینے کاثواب اور اس کی نفلی عبادت اس کی آمد سے پہلے لکھ دیتا ہے اور اس کی بدبختی اور گناہ بھی اس کے آنے سے پہلے لکھ دیتا ہے، کیونکہ مومن اس میں انفاق کے ذریعے قوت حاصل کر کے عبادت کرنے کی تیاری کرتا ہے اور منافق مومنوں کی غفلتوں اور ان کے عیب تلاش کرنے کی تیاری کرتا ہے۔‘‘ (ابن خزیمہ رقم 1884)
’’اسی طرح ایک روایت میں حضرت ابو مسعود غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا تھا کہ ایک دن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اگر لوگوں کو رمضان کی فیوض وبرکات کا علم ہوتا تو وہ تمنا کرتے کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔‘‘ ابن خزیمہ ۔رقم: 1886
ماہ رمضان یوں تو صلواۃ و صوم، تقوی و طہارت اور انفاق فی سبیل اللہ کا مہینہ ہے، البتہ قرآن کریم کے ساتھ اسکی مناسبت خاص ہے، چنانچہ ماہ رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے ۔ اور قرآن خود کتاب و ھدایت ہے لہذا رمضان المبارک میں قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرکے مومن اپنے مقصد کو پا لیتا ہے، الله تعالیٰ نے واضح طور پر بیان کیاکہ( یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کا نزول ہوا اور یہ قرآن لوگوں کے لیے سرپا ہدایت ہے) البقرة2:185 )
*ماہ رمضان کو جن وجوہ کی بنا پر دوسرے مہینوں پر فضیلت حاصل ہے ان میں سے چند یہ ہے*
(1) *تمام مہینوں سے افضل ہے* ماہ مبارک کو حدیث پاک میں *سيد الشهور شهر الرمضان* (تمام مہینوں کا سردار) کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کے تمام دن تمام لمحے سب سے بہتر،اور ایک ایک سیکنڈ بہت قیمتی ہے
چنانچہ حضرت سلمان فارسي رضي الله عنه روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی آخری تاریخ میں فرمایا۔اے لوگو ! سنو! تم پر ایک مہینہ سایہ فگن ہونے والاہے جو بہت بڑا اوربہت مبارک مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض فرمایا اور اس کے رات کے قیام کو ثواب کی چیز ٹھہرایاہے۔ جو شخص اس مہینہ میں کوئی نفلی نیکی بجا لائے گا تو وہ ایسے ہی ہے جیسا کہ عام دنوں میں فرض کا ثواب ہو اورورور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے گا وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستر فرائض ادا کرے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کا ہے۔ اس مہینہ میں مومن کارزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لئے گناہوں کے معاف ہو نے اور آگ سےنجات کا سبب ہو گا اور اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ہو گا مگر روزہ دار کے ثواب سے کچھ بھی کمی نہیں ہوگی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:یا رسول اﷲ! ہم میں سے ہر شخص تو اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ (یہ ثواب پیٹ بھر کرکھلانے پر موقوف نہیں) بلکہ اگر کوئی شخص ایک کھجور سے روزہ افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ دودھ کاپلادے تو اللہ تعالیٰ اس پربھی یہ ثواب مرحمت فرما دےگا۔یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزادی کاہے۔ جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام اور نوکر کے بوجھ کو ہلکا کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے گا اور آگ سے آزادی عطا فرمائے گا۔ اس مہینہ میں چار چیزوں کی کثرت کیا کرو جن میں سے دو چیزیں اﷲ کی رضا کے لیے ہیں اور دوچیزیں ایسی ہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں۔ پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگو۔جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کراتے ہوئے پانی پلائے گا تو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے اس کوایسا پانی پلائے گا جس کے بعد جنت میں داخل ہو نے تک اسے پیاس نہیں لگے گی۔‘‘ (ابن خزیمہ رقم 1887)
(2) *آسمانی کتابوں کا نزول*
اس سلسلے میں حضرت واسلہ بن اسقع روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابراہیمی صحیفہ رمضان المبارک کی پہلی رات اترا اور تورات 6 رمضان المبارک میں انجیل 13 رمضان المبارک میں آور قرآن کریم 24 رمضان المبارک میں نازل ہوا دوسری روایت میں ہے حضرت جابر رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ زبور 12رمضان اور انجیل 18 رمضان میں نازل ہوئی
(مسند احمد )
(3) *صیام کا مہینہ* ماہ رمضان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو روزوں کی دولت سے نوازا چنانچہ قرآن پاک میں ہے (جو شخص تم میں سے اس مہینہ کو پالیتا ہے وہ ضرور روزہ رکھے) بقره ايت185
رمضان المبارک کے روزوں کو جو امتیازی شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث مبارک سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘ بخاری، رقم : 1901
‘رمضان المبارک کی ایک ایک ساعت اس قدر برکتوں اور سعادتوں کی حامل ہے کہ باقی گیارہ ماہ مل کر بھی اس کی برابری و ہمسری نہیں کر سکتے۔روزہ انسان کو نفسانی خواہشات پر قابو رکھتے ہوئے تقوی و پرہیزگاری جیسی لازوال نعمت سے سرفراز کرتا ہے جو انسان پر روحانی کمالات کے لئے بہت ہی مؤثر ہے۔
(4) *قيام کا مہینہ*
اس مہینہ میں آدمی دن میں روزہ رکھ کر رات کو اپنے پروردگار کے حضور میں کھڑا رہ کر اپنی بندگی کا ثبوت پیش کرتا ہے چنانچہ حدیث پاک میں ہے حضرت ابو ھریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ * جس نے رمضان المبارک میں بحالت ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔‘‘بخاري رقم 2009
(5)*قرآن کا مہینہ*
رمضان المبارک کے مہینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اہم معمول قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنابھی تھا، رمضان المبارک کو قرآن کریم سے خصوصی نسبت ہے کیوں کہ یہ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے جس طرح دوسری نیکیوں کا اجر اس ماہ میں ستر گنا ہوجاتا ہے ، اسی طرح قرآن کریم کی تلاوت کا بھی اجر بڑھ جاتا ہے ، اگر عام دنوں میں قرآن کریم کے ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں تو رمضان میں ستر گنا اضافہ کے ساتھ ایک حرف کی تلاوت پر سات سو نیکیاں نامہ اعمال میں درج ہوں گی، حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیکی کے کاموں میں لوگوں سے بہت زیادہ سبقت لے جانے والے تھے خاص طور سے رمضان المبارک کے مہینہ میں خیر کے کاموں میں بہت اضافہ ہوجاتا ، رمضان میں جبرئیل امین کی بھی آمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زیادہ ہوجایاکرتی تھی اور جبرئیل جب آتے تو قرآن کریم کی تلاوت اور اس کا دور فرماتے۔ (بخاری رقم 1902)
(6) *شب قدر* یہ وہ رات ہے جس کے بارے میں قرآن مجید نے پوری سورت نازل فرمائی اس رات کو افضل ترین کہا گیا یہ رات ہزار مہینوں سے افضل ہے اس رات میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے وہ مومنون سے مصافحہ کرتے ہیں یہاں تک کہ فجر طلوع ہوتی ہے۔یہ رات سابقہ امتوں کے عبادت گزار بندوں سے سبقت لے جانے کا ایک بہترین موقع فراہم کرتی ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ذکر الٰہی میں مشغول رہتے تھے، لیکن جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو ذکر واذکار اور تسبیحات میں بہت اضافہ ہوجاتا ، کثرت ذکر کے ساتھ اس ماہ میں دعائیں بھی خوب کرتے تھے، حدیث پاک میں ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ماہِ رمضان میں ﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا بخش دیا جاتا ہے اور اس ماہ میں ﷲ تعالیٰ سے مانگنے والے کو نامراد نہیں کیا جاتا۔‘‘ رواه طبراني؛ رقم: 6170،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں کو اس ماہ میں کثرت سے ذکر اور دعا کرنے کا حکم دیا کہ اس ماہ میں دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں بالخصوص افطار کے وقت افطار سے پہلے دعاؤں میں مشغول ہونا چاہیے، ابو ھریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے رسول پاک کا ارشاد ہے: تین آدمیوں کی دعائیں رد نہیں ہوتی ہیں، روزہ دار کی افطار کے وقت ، انصاف پرور بادشاہ کی اور مظلوم کی ، (ترمذی )اسی طرح سحری کا وقت دعاؤں کی قبولیت کی گھڑی ہے ، سحری کے لئے جب بیدار ہوں تو چاہئے کہ دعاؤں کا بھی اہتمام کریں۔بالخصوص سال رواں میں پوری عالم انسانیت عام طور پر اور عالم اسلام خاص طور پر جن سیاسی و اقتصادی نشیب و فراز اور وبائی امراض سے جوجھ رہی ہے ان حالات میں رب ذوالجلال کی بارگاہ میں آہوزاری اور نادم بن کر اللہ کے حضور سچی اور خالص توبہ کی اشد ضرورت ہے چنانچہ قرآن کریم میں ہے ۔”
اے ایمان والو!اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایسی سچی توبہ کرو جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اَعمال میں ظاہر ہو اور اس کی زندگی طاعات اور عبادات سے معمور ہوجائے اور وہ گناہوں سے بچتا رہے،امید ہے کہ تمہارا رب توبہ قبول فرمانے کے بعد تمہاری برائیاں تم سے مٹا دے اورقیامت کے دن تمہیں ان باغوں میں لے جائے جن کے نیچے نہریں رواں ہوں۔سورة التحريم آية 8دوسری جگہ الله تعالى فرماتا هے (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وه مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وه میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے)۔البقرة رقم 186
اسلئے ہمیں چاہیے کہ ہم رمضان المبارک میں دعا اور توبہ و استغفار کی کثرت کریں اور عبادات کے ساتھ ساتھ اپنے معاملات اور اخلاق و کردار کو بھی درست کریں تاکہ الله رب العزت ہماری اعمال کو شرف قبولیت بخشے ،

بے زبانوں کو جب وہ زبان دیتا ہے

پڑھنے  والوںکو پھر وہ قرآن دیتا ہے

بخشش پہ آتا ہے جب امت کے گناہوں کو

تحفے میں گناہ گاروں کوپھر  وہ رمضان دیتا

Related Articles

Leave a Reply