Home
Trending

حافظ ابن کثیر کا عدیم النظیر کا رنامہ Hafiz Ibne Hajar

حافظ ابن کثیر کا عدیم النظیر کا رنامہ:۔


حافظ ابن کثیر پہلے مہ کے لیے ھہ کی معرکتہ الاراء تاریخی کتاب ” البدایہ والنبهانية ابتدائے آفرینش سے ان کے دور تک کا
نہایت مستند اور جامع تاریخی روز نامچہ ہے لیکن اب تک اس سے اردو داں حضرات محروم تھے۔ اپنی اس تحریر میں احقر تین نکات پر گفتگو کرے گا:
تاریخ نویسی آغاز و ارتقاء حافظ ابن کثیر کی سوانح
البدایہ والنہایہ موضوع اور اہمیت
تاریخ نویسی آغاز و ارتقاء

تاریخ نویسی … آغاز و ارتقاء
پہلے نکتہ پرمختصر گفتگو اس لیے ضروری ہے کہ جس عظیم فن کی ایک نہایت معتمد کتاب کا ترجمہ قارئین کے مطالعہ میں آ رہا ہے اس فن سے انہیں آگاہی حاصل ہو جائے اور اندازہ ہو جائے کہ یہ فن کتنا اہم ہے۔
قرآن کریم جو اللہ تعالیٰ کی آخری وحی ہے اس کا ایک حصہ ایسا ہے جس میں ماضی کے وقائع اور نقص کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں حضرات انبیاء علیہ سے ہم ان کی قوموں، مختلف حکمرانوں اور تہذیبوں کا ذکر ہے ۔ گو اس کا انداز بیان مروجہ تاریخ کی طرح ایک مربوط کہانی کا نہیں، تاہم تذکیر ونصیحت جو قرآن عظیم کا اصلی مقصد ہے۔ کے حوالہ سے کہیں اجمال اور کہیں تفصیل سے اس کا یہ پہلوا جاگر ہوتا گیا ہے ۔.

اہل اسلام کو اپنے ابتدائی ادوار میں اسرائیلی روایات اور ایرانی روایات سے بھی سابقہ پڑا اس قسم کی روایات نے خالص دینی ادب مثلا تفسیر وغیرہ کے پردے میں بھی اپنا رنگ جھانا چاہا لیکن مسلمان اہل علم کا ذوق نقد و جرح ایسا نہ تھا کہ یہ بات ان کے اعصاب پر سوار ہو کر ان کے سرمایہ علمی کو اس طرح خلط ملط کر دیتی کہ صحیح و غلط کی تمیز ختم ہو جاتی۔
اس رویہ سے ایک نیا فکری عصر تاریخ پر حملہ آور ضرور ہوا لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا کہ مسلمان اس مرحلہ سے بڑی خوش اسلوبی سے گزر گئے گو کہ بعض مواقع پر اختلاط نے کچھ اثر دکھلایا لیکن بنیادی طور پر مسلمان اس معاملہ میں بڑے حساس تھے اور غلط و باطل روایات آسانی سے ان کے حلق سے نیچے نہ اترتی تھیں، اگر کبھی ایسا ہو بھی گیا اور کسی مولف کے قلم نے لغزش و خطا کا مظاہرہ کیا بھی تو اس کے ہم عصر یا قریب العہد لوگوں نے اس کی اصلاح کا سامان فراہم کر دیا۔ محمد بن جریر الطبری (م۹۲۳ / ۳۱۰ھ ) کی کتاب تاریخ کا ایرانی عصر والا حصہ نکال کر نہایت ہی قابل قدر ہے اور وہ مختلف النوع تلبیات سے پاک ہے۔ اس کا اصل سبب یہ تھا کہ الطبری سب سے پہلے محدث تھے انہوں نے اپنی تفسیری کاوش کی طرح تاریخ میں بھی اس کا اہتمام کیا کہ مسلمان قوم کی اعلیٰ روایات کی پاسبانی و پاسداری ہو سکے ۔

مختلف زبانوں کے اہل علم نے قرآن کریم کے اس پہلو پرعلمی سرمایہ فراہم کیا ہے اردو میں دو کتا ہیں اس سلسلے میں بڑی اہم ہیں۔ ایک مولا نا محمد حفظ الرحمن سیدھا روی م ۱۹ کی قصص القرآن“ دوسری مولانا سید سلیمان ندوی مر13 کی ارض القرآن۔ قرآن کریم جو جملہ علوم وفنون کا سر چشمہ ہے اس کے انہی بیانات سے فن تاریخ کی بنیاد پڑی اور پھر مسلمان قوم نے اپنی
معارف پروری کے سبب اسے ایک لازوال فمن بنا ڈالا۔ تاریخ پر گفتگو کرتے ہوئے اردو دائرہ معارف اسلامیہ ” ( پنجاب یونیورسٹی لاہور ) کے فاضل مقالہ نگار کہتے
ہیں کہ :
اس لفظ سے عام طور پر مراد ہے قوموں کے عام وقائع کا بیان حولیات یعنی وقائع کا بیان به ترتیب سالیانه شرح وقائع
به ترتیب تاریخی”۔ ( ج ۲ ص ۳۶)
اسی مقالہ میں تاریخ پر گفتگو کرتے ہوئے دوسری بات یہ کہی گئی کہ :
کسی عصر خاص کی ابتداء کی تعیین حساب از مان حوادث کے وقت کی دقیق تعیین ۔ ( ج ۶ ص ۳۷) اس لفظ کا بنیادی مادہ و – رخ سے مشتق ہے اور یہ سامی زبانوں میں مشترک ہے۔ البیرونی اور الخوارزمی کے یہاں ایک روایت آئی ہے کہ یہ کلمہ فارسی لفظ “ماہ روز کا معرب ہے لیکن ثانی الذکر نے اس کو
رد بھی کیا ہے۔ (الاثار الباقیة ص ۲۹ مفتاح العلوم ص ۷۹ ) علم التاریخ جو آج ایک فن کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے وہ ادبیات کی ایک ایسی اصطلاح ہے جس میں سالینا ہے اور سیر دونوں شامل ہیں۔ اہل علم نے عربی فارسی تاریخ نگاری کے لحظہ بہ لحظہ حالات اس کے ادوار متعین کیے ہیں ۔ اور اس پر تفصیلی
گفتگو کی ہے۔.

اس تفصیل کے مطابق عربی تاریخ نگاری کی ابتداء کیسے اور کیونکر ہوئی ؟ ابھی تک قطعی طور پر اس سلسلے میں رائے قائم نہیں ہو سکی ۔ زمانہ جاہلیت کی زبان زد عوام روایات جنہیں اصطلاح میں “اساطیر” کہا جاتا ہے ( مخالفین اسلام نے وحی کے لیے یہی لفظ استعمال کیا اور اس طرح گویا اسے معاذ اللہ تعالیٰ بے وقعت بنانے کی کوشش کی ) ان سے جو سفر شروع ہوتا ہے اس سے لے کر
دوسری صدی ہجری تک کے علمی سرمایہ کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہے جسے اب تک پر نہیں کیا جا سکا۔
زمانہ حال کے مصنفین کا یہ نظریہ کہ اس ارتقائی مرحلہ میں فارسی کتاب شاہ نامہ” کا اثر پڑا دل لگتی بات نہیں، ہاں اس کا غالب گمان ضرور ہے کہ مختلف النوع تاریخی اور نیم تاریخی نگارشات کے دھارے جب اختلاط و آمیزش کے مرحلے میں داخل ہوئے تو اس سے عربی تاریخ نگاری نے ایک خاص رخ اختیار کیا۔ زمانہ جاہلیت کے تاریخی آثار کے سلسلہ میں سوائے دھند لے نقوش کے اور کچھ نہیں ملتا قدیم عرب اپنی مشکل پسند طبیعت کے پیش نظر ایک خاص انداز سے زندگی گزارنے کے عادی تھے اور تاریخی حس اس انداز سے ان میں نہ تھی ۔ اس کے باوجو: استہائے دور دراز کی ایک دنیا موجود ہے۔ ایسی ہی داستانوں کو وہب بن منبہ اور عبید بن شریہؓ نے مدون کیا اور

اسی طرح ہشام بن محمد السلمی (۲۰۴۴ ۵/ ۸۱۹ ء) نے اس سلسلہ کو آگے بڑھایا اور اس فن کی ابو عبیدہ سے زیادہ بہتر خدمت کی ملوک حیرہ کے گرجوں اور دو سیر عمارات کے پتھروں کو عربی میں ترجمہ کر کے اس نے استعمال کیا۔ اُدھر اس دور میں آنحضرت سلیم کی سیرت پر تحریری کام کی ابتداء ہوگئی جس کا اصل منبع و ماخذا حادیث نبویہ تھیں ۔ وسیع تناظر میں یہ علم التاریخ کا ایک حصہ تھا اور اس دور میں اس کے لیے ” مغازی کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی ۔ اس نسبت سے جو نام بہت شہرت پذیر ہے وہ حضرت عروة بن الزبیر منی پینا ( ۹۳ ) کا ہے جو ام المومنین سید نا عا ئشہ صدیقہ میں پانی کے حقیقی بھانجے تھے اور انہیں پہلا سیرت نگار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان کی روایات سیرت کو حال ہی میں ایک ہندی عالم دکتور محمد مصطفیٰ الاعظمی استاد جامعه رياض السعودیہ نے مرتب کر کے شائع کیا ہے۔
سیرت و مغازی رسول کے ضمن میں محمد بن مسلم بن شہاب الزہری ( حضرت عمر بن عبد العزیز مرطبہ کے حکم سے احادیث کی جمع و تدوین کرنے والے بزرگ) کا نام بھی بڑا معروف ہے اور پھر آئندہ چل کر سیرت محمد ابن اسحق جیسی کتاب الزہری کی روایات ہی کی بنیاد پر مرتب کی گئی، جس کا کتب سیرت میں ایک خاص مقام ہے۔ اس دور میں تاریخ کا کام بہت پھیل گیا اور اس فن نے بڑی ترقی کر لی چنانچہ ابن الحق ہی کی کتاب الخلفاء واقدی (م ۲۰۷ھ/۸۲۳ء) کی مغازی کے علاوہ دوسری کتب اسی دور کی یادگار ہیں واقدی کی اس فن میں جو حیثیت ہے اس کا اندازہ اس سے ممکن ہے کہ تاریخ کی اُمہات الکتب میں سے ایک یعنی طبقات ابن سعد (ابن سعد واقدی کے کا تب بھی تھے) کا بنیادی مواد واقدی ہی کا ہے سیرت رسول کے ساتھ سیرت صحابہ بالخصوص خلافت اور اس کے تعلقات کے ضمن میں بھی اس دور میں خلافتی احکامات اور مخطوطات کی بنیاد پر لکھنے کا رواج ہوا۔ یہ جہاں مسلمانوں کی حکومتی تاریخ تھی وہاں ان کا اجتماعی کردار بھی اس سے سامنے آیا اور بعض اہم شخصیات کی سیرت شخصی سے بھی ایک دنیا متعارف ہوئی اس سلسلے میں سید نا علی مبنی بعد اور سیدنا معاویہ میں انار کے دور کے اختلافات کے حوالہ سے بھی تاریخی مواد میسر آیا جیسے ابو خف (م ۱۵۷ھ ) کی روایت جسے ہشام الکلمی نے جمع کیا، اہل کوفہ کے حق میں اور اہل شام کے خلاف ہے جب کہ کلبی

اس دور کے معروف مؤرخین ابو عبیدہ ( ولادت ۱۰ احد وفات ۲۰۹ھ) نے لگ بھگ دو سور سائل اس بن کے حوالہ سے لکھے ۔ ان رسائل میں سے آج اپنی اصل شکل میں ایک بھی موجود نہ ہو یہ اپنی جگہ ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بعد کے مجموعوں
میں اس کا مواد بہت ہی وافر مقدار میں نظر آتا ہے۔
مؤرخ مسعودی نے مروج الذہب میں خاندان بنوامیہ کے گوہر شب چراغ سیدنا امیر معاویہ بن ابی سفیان بنیہ مینا کے تاریخ کے سلسلہ میں اہتمام داحساس پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ رات کا ایک تہائی حصہ وہ اس سلسلہ میں خرچ کرتے ۔ ایک مستقل طبقہ تھا جن کے ذمہ یہ کام تھا اور وہ بڑے کھلے ماحول میں عرب و عجم کے وقائع اور احوال کی کیفیات بڑی تنگ دود سے مرتب کرتے اور حضرت الا میر ذاتی طور پر ان کی سر پرستی کرتے اور مدون شدہ حصہ کا جائزہ لیتے ۔ مسعودی کے بقول یہ اہتمام محض اپنے قبیلہ کے نقطہ نظر سے نہ تھا بلکہ وسیع تناظر میں اس کا اہتمام کیا گیا۔
( منقول از مقدمه سیرت ابن اسحاق از ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب ص کی )

بہر حال ان کا اپنا ایک مقام ہے اور انہیں ایک درجہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ بعد کے مؤرخین نے انہی واقعات کو اپنی تصانیف میں شامل کیا’ وہب بن منبہ کی کتاب التجان” سے بحری تک نے جابجا استفادہ کیا ۔ ابن خلدون نے ( ج ص ۱۳ ۱۴) میں اس کی بعض روایات پر فقد بھی کیا ہے لیکن روایات کے اخذ میں انہوں نے بھی بھل سے کام نہیں لیا اور جہاں ان کے اپنے اصولوں کے مطابق استفاد ممکن ہوا انہوں نے استفادہ کیا۔ پھر چونکہ دنیائے عرب قبائل پر مشتمل تھی اور مختلف قبیلوں کا اپنا مزاج تھا اس لیے یہاں قبائلی روایات کا بھی ایک لا متناہی سلسلہ تھا۔ یہ روایات نظم و نثر کی شکل میں موجود تھیں اور بہر حال ان کا معاملہ ایسا تھا کہ ان کو کام میں لایا جا تا اور ان سے مطالب اخذ کیے جاتے بعد میں یہی قبائلی روایات قبائلی تاریخ میں تبدیل ہو گئیں اور ان میں بہت حد تک صداقت کی روح نظر آنے لگی اسلام نے اخلاق عالیہ کا جو سبق پڑھایا اس کے نتیجہ میں ان نوشتوں میں صداقت شعاری ابھر کر
آگئی گو کہ قبائل کی خصوصیت اپنی جگہ رہیں اور اس میں حرج بھی نہ تھا۔ حضور اکرم نلی یا تم نے فرمایا تھا:
دو کہ جاہلیت میں تم میں سے جو کسی خاص حوالہ سے شہرت و عزت رکھتے تھے ان کا جو ہر اسلام میں بھی جوں کا توں رہے گا اور اس پر اثر نہ پڑے گا۔
انہی قبائلی روایات کی وجہ سے نسب محفوظ رکھنے کا رواج تھا اور اس معاملہ میں بڑے بڑے جبیل المرتبت صحابہ منی بینیم کو امتیازی مقام حاصل تھا ۔ اور علم اذا نساب“ نے ایک مستقل فن کی شکل اختیار کرلی۔ تاریخ کا سفر اسی طرح جاری تھا کہ دوسری صدی ہجری آ پہنچی اس کا ابتدائی دور ایسا تھا کہ مملکت اسلامیہ میں بنوامیہ بلا شرکت غیرے حکمران تھے۔ ان کی معارف پروری اور علمی خدمات کا دور دور تک شہرہ تھا مخصوص سیاسی حالات نے ان کی طرف عجیب و غریب روایات منسوب کر دی ہیں، تاہم ان کی علمی خدمات ایسی ہیں کہ ان کے متعلق دورا ئیں ممکن نہیں، ماضی قریب کے معروف رہنما سر آغا خان کا بنوامیہ سے فکری اختلاف معروف و مسلم ہے لیکن انہوں نے بھی اس کا اعتراف کیا اور بنوامیہ کے دور کو شاندار علمی دور قرار دیا۔ شعر ونشن کے قدیم ذخیروں میں سے خاص طور پر وہ حصہ جو پچھلے مجموعوں میں سے باقی رہ گیا تھا اسے اس

تیسری اور چھٹی صدی کا درمیانی دور تاریخی کتب کی بے حد کثرت کا دور تھا، اس دور کی خصوصیات مختصراً یہ ہیں: سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس دور میں مقامی روایات جمع کرنے کا عام رواج ہو گیا تا کہ آئندہ کام کرنے والوں کے سامنے ایک وسیع دفتری مواد موجود ہو۔
(6)
مفصل اسناد جو محدثانہ طرز و طریق تھا اس کے بجائے اب مجمل اسناد پر اکتفا کیا گیا اور سلسل واقعات کی تصویر کشی کی گئی جیسے روزنامچہ یا سالنامہ ہوتا ہے۔ اس دور میں جعل سازیوں کا طوفان بھی اٹھا جس سے معین سیاسی اغراض یا د نیوی مقاصد کو پورا کرنا مطلوب تھا۔ لیکن انداز ایسا ہے کہ اصل و نقل اور صحیح و غلط میں امتیاز آسانی سےممکن ہے۔ اس دور میں سیاسی تاریخ نویسی سے ارباب حدیث نے ہاتھ پھینچ لیا اور اب اس نے شاہی خاندانوں کے سالناموں کی شکل اختیار کر لی اس لیے محدثین نے صرف نظر کر لیا اور اب عمال حکومت یہ کام کرنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ نگاری کا قدیم تصور زیادہ دیانت داری کے ساتھ پورا ہونے لگا۔
اس زمانہ میں خود نوشت سوانح کا بھی رواج ہوا گو کہ اب قدیم سرمائے سے بہت کم مواد میسر ہے۔ اس سارے دور اور مابعد کے ادوار میں طریق اسناد کی پابندی ( گو مجملاً سہی) تاریخوں کا اہتمام اور صاحب ترجمہ کے
مختصر حالات کا اہتمام ہوتا رہا۔ ه سیرت اور تاریخ کی آمیزش سے سیرت پر مبنی تاریخیں اس زمانہ میں سامنے آئیں ۔ مثلاً وزراء قضاۃ شاہی خاندان وغیرہ کے مفصل الگ الگ تذکرے ۔ مسلم دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات بدنظمی اور حالات کے دباؤ نے اس دور میں فارسی میں تاریخ نویسی کا دروازہ کھول دیا۔ ویسے چوتھی صدی ہجری کی ابتدا ہی سے ایرانی قبائل نے اپنے قومی تعصب کی بنا پر فارسی کے احیاء کی کوشش شروع کر دی لیکن سیاسی بدنظمی نے اس کے لیے اور ہر راستہ ہموار کر دیا۔ تاہم یہ یا در رکھنے کی بات ہے کہ فارسی تاریخ نویسی

تیسری صدی ہجری شروع ہوئی تو ایک طرف کا غذا ایجاد ہو گیا دوسری طرف تہذیب و تمدن کا معیار بہت بڑھ گیا ( کاغذ کا پہلا کارخانہ بغداد میں ۱۷۸ ھ میں قائم ہوا ) اس صورت حال نے ادب و تاریخ کے ہر شعبہ پر گہرے اثرات مرتب کیئے وہ قدیم ترین مخطوطات جو آج ہمارا سرمایہ ہیں وہ اسی زمانہ کی یادگار ہیں۔ تاہم اس دور میں شخصی روایات (منہ زبانی اور سینہ بسینہ روایات) کا سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس صدی کے آخر تک بڑی شد و مد کے ساتھ جاری رہا۔
علی بن محمد المدائنی بصری (م ۲۲۵ھ) سے منسوب ۲۳۰ رسائل سے کچھ تو ابو عبیدہ کے اصلاح شدہ ہیں کچھ اس کے کتابت کردہ اور کچھ اس کی زبانی روایات پر مشتمل ہیں جو اس کے شاگردوں نے مرتب کیے ۔ ان رسائل سے اہم ترین چیز اس کی تاریخ خلافت ہے یا محض دوسری کتب جنھیں دبستان مدینہ کے اصول تنقید کے مطابق اس نے مہذب و مرتب کیا۔
انسائیکلو پیڈیا آف اسلام ( جامعہ پنجاب ) کے مقالہ نگار کے بقول :

بعض علماء نے اخباری حضرات کی مخالفت ضرور کی لیکن امت میں تاریخ کا شعور پیدا ہو گیا اس شعور کے پس منظر میں قرآنی تاریخی دلائل وسیع سلسلہ فتوحات کے سبب پیدا ہونے والا فخر اور عرب قبائل کی رقابت نے بڑا مؤثر کردار ادا کیا ۔ ( ج ۲ ص ۵۳)
تاریخ کے مطالعہ کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ اہل سنت کے بقول انہی نظام کا دوام و استمرار امت الہی سے وابستہ ہے اس لیے امت کی تاریخ گویا ایک لازمی دینی چیز بن جاتی ہے جس سے اہل اسلام کو مفر نہیں اس لیے اس شعور و ادراک کے بعد تاریخ نویسی اسلامی تہذیب و تمدن کا جزو لا ینفک بن کر رہ گئی۔ جب یہ صورت حال پیدا ہو گئی تو پھر ہر اس جگہ تاریخ کا چرچا ہوا جہاں اسلام کے قدم پہنچنے مہذب مفتوحہ ممالک کا صالح مواد لے کر اسے روح اسلام سے مشرف کیا گیا تو افریقہ جسے بجر علمی علاقے بھی
اس سے محروم نہ رہے۔ تیسری صدی کے وسط سے وسیع معنی میں تاریخی تالیفات کا سلسلہ شروع ہوا جس میں مفرور سائل اور مختلف النوع روایات کی چھان پھٹک کر کے ایک مربوط تاریخ مرتب کرنے کی سعی کی گئی۔
اس سلسلہ میں اولیت کا شرف احمد بن یحیی البلاذری کو حاصل ہے (م۵۲۷۹ / ۸۹۲ء ) البلاذری المدائنی اور ابن سعد دونوں کا شاگرد ہے، اس کی کتابوں میں جہاں اس کے اساتذہ کے اثرات نمایاں ہیں وہاں اس کے اپنے دور کے تنقیدی مذاق کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ ان کتابوں میں مقدمہ کے طور پر ابتدائے آفرینش سے آخر تک دنیا کے بڑے چھوٹے واقعات خلاصہ کے طور پر پیش کیے گئے ہیں، یہ تصور ابن اسحق کے یہاں ابتدائی درجہ میں موجود تھا لیکن اس کے بعد اس میں توسیع ہو گئی اور اب پورے اہتمام سے اس
فن کو لکھا گیا ۔

Leave a Reply